حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق معلم اخلاق آیت اللہ ناصری دولت آبادی نے شہر اصفہان میں "شیعہ اور میانہ روی" کے موضوع پر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو درس اخلاق دیتے ہوئے کہا: امیرالمومنین علیہ السلام اپنے دوستوں کا اس طرح تعارف کرواتے تھے:" مَلبَسُهُم الاِقتِصاد" یعنی مومنین اور باتقوا افراد لباس کے معاملے میں میانہ روی سے کام لیتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا: لباس کا دوسرا معنی ہے یہ ہے کہ یہ زندگی سے کنایہ ہے یعنی مؤمنین اور متقین کی زندگی درمیانہ درجے کی ہوتی ہے یعنی ان کا طرز زندگی نہ تو بہت گھٹیا ہوتا ہے کہ آبروریزی کا سبب بنے اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ فضول خرچی کا باعث بنے۔
معلم اخلاق آیت اللہ ناصری نے کہا: متقی افراد حدیث شریف " خَیرُالاُمور أوسَطُها" یعنی درمیانے درجے کی زندگی کا انتخاب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا:" إِنَّ هَذَا اللِّسَانَ مِفْتَاحُ کُلِّ خَیْرٍ وَ شَرٍّ فَیَنْبَغِی لِلْمُؤْمِنِ أَنْ یَخْتِمَ عَلَی لِسَانِهِ کَمَا یَخْتِمُ عَلَی ذَهَبِهِ وَ فِضَّتِهِ" نماز ہر نیکی اور اسی طرح ہر برائی کی کنجی ہے۔ اگر آپ کوئی نیکی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی چابی زبان ہے اور یہ برائی جو آپ کے کسی بھی بدن کے اعضاء سے صادر ہوتی ہے اس کی بھی کنجی زبان ہے۔